محترم شیخ الوظائف صاحب السلام علیکم!میں ایک انتہائی حالات کا ماراہوا دکھی انسان ہوں۔میری زندگی اب غموں اور دکھوں میں ڈوبی ہوئی ہے۔کسی طرف سے بھی ایک پل سکھ کا سانس نصیب نہیں ہے۔گھر اور باہر ہر طرف سے ذلیل و رسوا ہو رہا ہوں۔میرے حالات اس قدر کمزور ہو چکے ہیں کہ صرف بھیک مانگا باقی رہ گیا ہے۔
زندگی کی ہر آسائش موجودتھی
میرے یہ حالات شروع سے ایسے نہیں تھے بلکہ میں ایک خوشحال زندگی گزار رہا تھا۔ایک بڑے ادارے میں اچھے عہدے پر نوکری کر رہا تھا۔رشتہ دار احباب‘ہمسائے غرض ہر شخص میری حد سے زیادہ عزت کرتا تھا اور قدر کی نگاہ سے دیکھتا تھا۔اس وقت زندگی میں کسی چیز کی کمی نہ تھی‘ضروریات زندگی کی ہر چیز میرے پاس موجود تھی۔کوئی بڑی پریشانی اور مشکل نہیں تھی۔اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی بے شمار نعمتیں‘عزت‘دولت اور شہرت مل چکی تھی‘بجائے اس مالک پروردگار کے شکر ادا کرنے اور مخلوق کے لئے آسانیاں پیدا کرنے کےمیں غرور اور تکبر میں آگیا ۔یہی سے میرے زوال اور رسوائی کے دن شروع ہونے لگے۔ میرے گھر میں ایک چھوٹی سی بچی کام کرتی تھی‘انتہائی غریب گھرانے سے تعلق رکھتی تھی۔
غرور اور تکبر مجھے لے ڈوبا
وہ کمسن میرے گھر کا کچھ کام کاج کرتی تھی جس کے عوض اسے تھوڑے سے پیسے مل جاتے تھے۔میںاس ننھی جان پر بے تحاشہ ظلم کرتا تھا‘کسی بھی کام میں اگر تھوڑی سی بھی خامی دیکھ لیتا تو اسے بری طرح مارنا پیٹنا شروع کر دیتا تھا۔وہ میری بیٹیوں کے جیسی تھی مگر میں اس پر ذرا برابر بھی رحم نہیں کرتا تھا‘غریب سمجھ کر اسے حقارت کی نظرسے دیکھتا تھا۔اس تمام تر ظلم میں اکیلا شامل نہیں تھا بلکہ میری بیوی بھی اس میں شریک رہی۔کچھ عرصہ بعد اس بچی کی ماں اسے ملنے کے لئے آئی اور اپنی بیٹی کی جب بری حالت دیکھی تو بغیر کوئی بات کیے اور کچھ کہے اسے ساتھ لے گئی اور دوبارہ نہیں آئی۔جس دن وہ بچی میرے گھر سے گئی ‘زندگی کے برے دن شروع ہو گئے۔
وقت پلٹا اورمکافات کا سلسلہ شروع ہوگیا
اللہ تعالیٰ نے مجھے بیٹی عطا فرمائی ‘ اسے پیدائشی طور پر الرجی کی بیماری تھی۔اس بیماری کی وجہ سے اس کی ساری جلد خراب ہو چکی تھی مگر پھر بھی وہ مجھے اپنی جان سے زیادہ پیاری تھی۔اس بیماری کی وجہ سے وہ ننھی سی جان سارا دن روتی اور سسکتی رہتی‘تین سال مسلسل وہ اس کرب و بیماری میں مبتلا رہی۔اس کا علاج کروانے کی ہر ممکن کوشش کی‘بڑے سے بڑے ہسپتال اور ڈاکٹروں کے پاس چیک کروایا مگر وہ شفایاب نہ ہو سکی۔بیٹی کی سسکیاں اور رونا دیکھ کر مجھے اس بچی کی سسکیاں یاد آگئیں جس پر میںنے دن رات ظلم ڈھائے تھے‘یہ سب اسی مکافات کا نتیجہ تھا۔آخر اسی بیماری کی حالت میں میری بیٹی کا انتقال ہو گیا۔
عزت ‘دولت اور شہرت سب ختم ہوگیا
اس صدمہ نے مجھے اندر سے توڑ کر رکھ دیا مگر مکافات کا سلسہ یہی پر ختم نہ ہواچند ہی دنوں میں کچھ ایسے نا موافق حالات پیدا ہوئے کہ مجھے نوکری سے نکال دیا گیا۔جس کمائی اور نوکری پر مجھے ناز اور تکبر تھا وہ بھی ختم ہو گئی۔جو لوگ عزت اور محبت کرتے تھے وہ بھی مجھے تنگ نظری سے دیکھنے لگے۔روزگار کے لئے مختلف کام کاج کیے مگر ناکامی ہی ملی۔سالہا سال گزر چکے ہیں بے روزگار پھر رہا ہوں۔اکثر گھر میں فاقے ہوتے ہیں‘حالات اس قدر خراب ہیں کہ بیوی باہر کام کرنے پر مجبور ہے جس سے کچھ گزر بسر ہو جاتا ہے۔
ایک دن بیوی کے ساتھ کہیں جا رہا تھا تو اس مظلوم ماں اور بچی سے اچانک ملاقات ہوئی۔میں نے اور میری بیوی نے باہر روڈ پر سب کے سامنے ہاتھ جوڑ کران پر کیے ظلم و ستم کی معافی مانگی‘انہوں نے ہمیں معاف کر دیا مگر مکافات کا سلسلہ ابھی تک ختم نہیں ہوا۔اپنے گناہوں پر سخت نادم ہوں‘اللہ تعالیٰ اپنے محبوبﷺ کے وسیلےسے معاف فرمادے۔ آمین!
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں